Orhan

Add To collaction

حدت عشق

حدت عشق
از قلم حبہ شیخ
قسط نمبر9

شاہ ذل آفس کے لیے نکل رہا تھا کہ اس کا ٹکراؤ آئمہ بیگم سے ہوا....
اسلام علیکم!! بڑی مما.. شاہ ذل نے دل سے سلام کیا.جس کا انہوں نے خوشدلی سے جواب دیا..... 
خیریت ہے بڑی مما آپ آج اتنی صبح صبح یہاں...
شاہ ذل نے انکی طرف دیکھتے ہی کہا... 
ہاں بیٹے کچھ کام تھا...بھابھی اندر ہیں کیا!!!  
جی بڑی مما!! ماں تو اندر ہی ہیں کیا کوئ کام ہے مجھے بھی تو پتا چلے.... 
شاہ ذل نے شرارت سے ان کی گردن بازو حمائل کیے اندر تک آیا اور پوچھنے لگا..... 
اسلام علیکم!!! بھابھی کیسی ہیں آپ...آئمہ بیگم نے آمنہ بیگم کو سلام کیا اور خیریت معلوم کرنے لگی....
میں ٹھیک...آمنہ بیگم نے کہا اور پوچھنے لگی آج صبح صبح میرے پاس کیسے....
وہ بھابھی میں آج شام کے لیے آپ سب کو دعوت دینے آئ ہوں..
دراصل حمزہ کے ایک قریبی دوست کو سارہ بہت پسند آئ تھی... تو وہ اپنے بیٹے کے لیے سارہ کا ہاتھ مانگنے آرہے ہیں....
آئمہ بیگم نے خوش ہوتے ہوۓ کہا .....
اور شاہ ذل کی مسکراہٹ پل بھر میں سمٹی اور بےیقینی سے دیکھنے لگا....
بڑی مما...کب دیکھا انہوں نے سارہ کو شاہ ذل نے پہلو بدلتے ہوۓ پوچھا....
اور آمنہ بیگم اپنے بیٹے کا بےچین ہوتا دیکھ رہی تھی...
بیٹا وہ امریکہ سے کافی سال پہلے آۓ تھے ملنے تب دیکھا تھا.
اوہ اچھا!!! شاہ ذل یہ کہہ کر چپ ہو گیا...... 
پھر تھوڑی دیر بعد شاہ ذل ہمت مجتمع کرتے ہوئے بولا...... 
بڑی مما کیا یہ بات سارہ کو پتا ہے ؟؟؟؟؟
نہیں بیٹا ابھی نہیں بتایا شام کو ان کے جانے کے بعد بتاوں گی.... ابھی تو وہ یونی گئ ہوئ ہے.... 
آمنہ بیگم نے شاہ ذل کو پوری بات بتاتے ہوۓ کہا..... 
شاہ ذل نے گہرا سانس لیا اور خاموشی کی نظر ہو گیا..... 
اچھا مما میں چلتا ہوں...آپ دونوں جاری رکھیں...شاہ ذل یہ کہتے ہوئے وہاں سے  مسکراتا ہوا نکلتا چلا گیا....
""""""آشنا سے چہروں کے اجنبی رویوں کو سہہ کر مسکرا دینا آفرین ازیت ہے""""""
شاہ ذل آفس میں غائب دماغی سے بیٹھا تھا کہ شاہ ذل کو فائز کے آنے کا بھی پتا نہیں چلا....
اہمممممم......فائز نے گلا کھنکھارا  اور شاہ ذل کو اپنی طرف متوجہ کیا....
شاہ ذل چونکہ اور اپنے کام میں مصروف ہو گیا.....
اوۓ خیر ہے آج تو بڑی خاموشی چھائ ہوئ ہے....کس کی یادوں میں گم ہے...
         """جگر اپنا""
نہیں ایسی کوئ بات نہیں ہے.... تو سنا تو کب آیا اسلام آباد سے.... 
شاہ ذل نے بات بدلتے ہوۓ فائز سے استفسار کیا.... 
بس کل رات ہی آیا اور سوچا کہ آج اپنے  Darling دوست کا دیدار ہی کرلوں...
ہا ہا ہا ہا ہا اچھا بڑی باتیں بنانے لگا ہے....
شاہ ذل نے ہنستے ہوۓ کہا لیکن اس کی ہنسی چہرے کی اداسی کا ساتھ نہیں دے رہی تھی.....
فائز یہ یہ سب دیکھ کر سیریس ہوا اور بھر پور طریقے سے متوجہ ہوا....... 
یار کیا بات ہے...کیوں اداس ہے... ""دیکھ""جو بھی بات ہے بتا دے. میں تیرے ساتھ ہوں...
فائز نے الجھتے ہوۓ کہا...... 
شاہ ذل نے کرسی سے ٹیک لگائ اور کھوۓ کھوۓ لہجے میں کہا..
یار وہ میری ہونے سے پہلے ہی مجھ سے دور ہو رہی ہے کیا کروں میں...
کیا کہہ رہا ہے تو ٹھیک سے بتا دے.... فائز ناسمجھتے ہوۓ انداز میں بولا....... 
پھر شاہ ذل نے شروع سے آخر تک ساری روادا سنائ....
کچھ دیر خاموشی کے نظر رہے پھر فائز نے کہا....... 
دیکھ یار میں تجھے گارنٹی دلاتا ہوں ایسا کچھ نہیں ہوگا... 
سارہ تیری ہی ہے تیری ہی رہے گی.... اب دل پر نہ لے زیادہ میں مما پاپا سے بات کرتا ہوں ٹھیک ہے.... 
اور شاہ ذل کو لگا کہ اس کے دل سے جیسے بوجھ سرکا ہو.... 
اچھا اب اٹھ سارہ کو یونی سے لے کر آ اور اسے اپنے دل کی بات بتا........ 
پہلے ہی بتا دیتا تو ایسے رانجھا رہا تھا..... میں تو سمجھا پتا نہیں تو نے کونسے گل کھلا دیے ہو.... 
فائز نے مزاحیہ انداز میں اسے چھیڑتے ہوۓ کہا.......
اور شاہ ذل نے ہنستے ہوۓ اسے گلے لگایا اور سارہ کو لینے کے لیے نکل گیا.... 
سارہ یونی کے باہر ڈرائیور کا انتظار کر رہی تھی کہ اسے شاہ ذل کی گاڑی آتی نظر آئ .....
سارہ نے شاہ ذل کو دیکھتے ہی ہمکلام ہوئ......... 
""""اُف اللہ جی یہ ہٹلر یہاں کیا کرنے آئیں ہیں"""""
اور شاہ ذل اسے دور سے دیکھتے ہوۓ مسکرانے لگا جیسے  اس کے ہونٹوں کی جنبش سے سب کچھ سمجھ گیا ہو..... 
شاہ ذل گاڑی سے اترا اور سارہ کے پاس پہنچا.... 
سارہ نے گھبراتے ہوۓ سلام کیا.
"اسلام علیکم!!!!! شاہ ذل بھائ.
"""وعلیکم اسلام""" شاہ ذل نے خوشدلی سے جواب دیا اور اسے دیکھتے ہوۓ مخاطب ہوا.....
   """چلو گاڑی میں بیٹھو"""
کیوں شاہ ذل بھائ ڈرائیور نے آنا ہوگا....
 سارہ نے جواب دیا!!
اوہو ڈرائیور کو میں نے منع کر دیا ہے... آج میں آیا ہوں لینے.... 
اچھھھا.... سارہ نے اچھا کو لمبا کرتے ہوئے کہا... 
ہممممم....شاہ ذل نے بھی اس کے انداز میں جواب دیا...
سارہ گاڑی کی طرف بڑھی اور آگے جا کر بیٹھ گئ.... 
اور شاہ ذل اسے آگے بیٹھتے ہوۓ دیکھ کر جی جان سے مسکرایا.... 
شاہ ذل گاڑی میں بیٹھا اور گاڑی سٹارٹ کی... تھوڑی دیر بعد شاہ ذل نے سارہ کو مخاطب کیا....
سارہ مجھے تم سے بات کرنی ہے... سارہ جو کھڑکی سے باہر کے منظر دیکھنے میں مصروف تھی... شاہ ذل کی بات سنتے ہی متوجہ ہوئ... 
      """""جی بھائ """""
وہ... میں شاہ ذل ایک بار اٹکا لیکن پھر بولا..... 
سارہ دیکھو... میں تم سے شادی کرنا چاہتا ہوں.... آج جو تمہارے رشتے والے آئیں انہیں انکار کر دینا ٹھیک ہے...... 
اور سارہ یہ سب سنتے ہی صدمے میں چلی گئ..... 
یہ کیا کہہ رہے ہیں آپ شاہ ذل بھا..........بھائ سارہ بولنے ہی لگی تھی کہ شاہ ذل نے اپنے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر ایک بار پھر سے ٹوکا...... 
   ""ششش"""ظالم لڑکی مت کہا کرو یہ.....اتنا ظلم.......
پر میں کیسے سارہ نے ایک بار پھر سے کہا ....
بس تم ہاں کرو باقی میں خود سنبھال لوں گا..... 
شاہ ذل نے التجائیہ انداز میں دیکھتے ہوۓ کہا.... 
اور سارہ کو تو سمجھ نہیں آرہی تھی کیا کہے وہ...... 
Surprise episode❤❤
حدت عشق
از قلم: حبہ شیخ
قسط نمبر# 10
صبح خبیب شاہ کی آنکھ 10 بجے کے قریب کھلی۔ادھر  نظر دوڑائی وہ کہیں نظر نہیں آئی ۔ باتھروم سے پانی گرنے کی آواز آ رہی تھی
ہممم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چلو اچھا ہے میرے اٹھانے سے پہلے آٹھ گئی۔
لبابہ باتھروم سے فریش ہو کر نکلی تو خبیب شاہ کو سوتا ہوا دیکھ شکر کا سانس لیا جو کہ شاہ سمجھ چکا تھا.
خبیب شاہ کن انکھیوں سے اسے دیکھا تو وہ اپنے ایک ہاتھ سے بال سنوارنے کی کوشش کر رہی تھی
دوسرے ہاتھ پر جلے ہوئے تازے نشان برقرار  تھے
جب دو تین بار بھی بال بنانے میں وہ ناکام ہوئی تو لبابہ وہیں زمین پر بیٹھ کر بےبسی سے رونےلگی
اور خبیب شاہ وہیں پتھر بنا بے سدھ لیٹا رہا.
لبابہ کو روتے روتے ایک دم غصہ آیا اور بےدردی سے آپنا جلا ہوا ہاتھ زمین پر مارنے لگی
جب خبیب شاہ سے برداشت نہ ہوا تو وہ ایک جھٹکے سے اور چھلانگ مارتے ہوئے اس تک پہنچا اور اس کے دونوں ہاتھ غصے سے پکڑے اور زور سے دھاڑا...............
یہ کیا بدتمیزی ہے ہاں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سمجھتی کیا ہو خود ہاں بولو کیوں سانپ سونگھ گیا۔۔
تمہیں پہلے بھی کہا ہے تمہاری زندگی کا فیصلہ میرے ہاتھ میں ہے پھر کیا ہے یہ سب میری مرضی سی جیو گی اور مروگی سمجھی تم اب اگر تم نے ایسی ویسی کوئی حرکت کی تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا سمجھی 
لبابہ جو ٹکٹکی باندھے اسے دیکھ رہی تھی ایک جٹھکے سے دور ہوئی اور پاگلوں کی طرح چلاتے ہوئے بولی
خبیب شاہ تم کیا سمجھتے ہو خود کو تم بتاؤ ہو کیا ہاں
میں انسان ہوں جانور نہیں جو تمہاری دی ہوئی ہر تکلیف برداشت کروں گی 
خدا کا واسطہ مجھے بھی تکلیف ہوتی ہے تمہارا ہر عمل اور تمہارے الفاظ میری روح تک کو زخمی کر دیتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔ 
چ۔چ۔چ۔چ لبابہ عادل کہاں گیا تمہارا غرور  ابھی سے ہار مان لی ابھی تو بہت حساب باقی ہاہاہاہاہاہاہاہاہا
وہ استزاہیہ ہنسی ہنستے ہوئے اس کی روح کو ایک بار پر زخمی کر گیا 
نہیں مانی ہار میں نے خبیب شاہ سہ تو رہی ہوں تمہارے ظلم کے تو رہے ہو تم بدلہ وہ بھی سود سمیت 
وہ چلتے ہوئے اس تک پہنچی اور اسے کالر سے پکڑتے ہوئے دیوانہ وار بولتی رہی
یہ دیکھو یہں ہے نہ وہ ہاتھ 
اس کی طرف آپنا جلا ہوا ہاتھ دیکھاتے ہوئے بولی 
دیکھو تم نے یہ بھی جلا دیا
ہاہاہاہاہاہاہاہاہا اور روتے روتے زور زور سے ہنسنے لگی 
اور شاہ کو لگا جیسے وہ پاگل ہو گئی ہو 
شاہ گھبراتے ہوئے دھاڑا
بکواس بند کرو اپنی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  
کیں سن کر برا لگ رہا ہے نہیں کرتی بند کیا کرو گے ہاں 
مارو گے میں تو چاہتی ہوں جان سے ماردو سارا قصہ ختم ہو
پتا ہے تم جیسے مردوں کو لگتا ہے کہ عورت کو رلانےسے 
تڑپانے سے؛ ترسانے سے اور ظلم وستم کرنے سے ان کی مردانگی کی شان بڑھتی ہے تو ان کی غلط فہمی ہے
جب عورت ظالم وستم برداشت کرتی ہے روتی ہے تڑپتی ہے تو رفتہ رفتہ ان کی آنکھوں سے آپ کے لیے عزت و احترام اور ڈر ختم ہو جاتا ہے
نہ تو اسے تمہاری نفرت کی فکر ہوتی ہے نہ ہی ہمدردی کی
جس دن صبر آ گیا ۔۔۔۔۔۔ اس دن آنسو ختم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نفرت ختم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ظلم و ستم ختم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رہے گا تو بس خالی وجود جسے جب چاہو توڑلو ۔۔۔۔۔
جب چاہے جوڑ لو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ سب کہتے ہوئے وہ زمین پر بیٹھتی چلی گئی اور زور زور سے دھاڑے مار کر رونے لگی اور خبیب شاہ بنا کچھ کہے اسے ایسے ہی چھوڑتا ہوا نکل گیا اور اسٹی میں جاکر بند ہو گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ ٹیبل کے پاس پہنچا اور دراز میں سے لائٹر او سیگریٹ نکال کر سلگانے لگا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک دو تین۔۔۔۔۔۔پتا نہی کتی سیگریٹ وہ پیتا رہا ضبط کے مارے آنکھیں شعلہ برسا رہی تھی وہ وہاں سے نکلا اور واشروم میں جاکر ٹھنڈے پانی کے شاور کے نیچے کھڑا اپنے اندر کی آگ کو کم کرنے کی کوشش کرتا رہا اور لبابہ وہاں سے اٹھی اور دوسرے کمرے میں جاکر خود کو بند کر لیا اور وضو کیا اور رب تعالیٰ کے سربسجود ہوگئ 
وہیں شاہ جلدی سے تیار ہوا اور لبابہ کو بنا کچھ کہے آفس کے لیے نکل گیا۔۔۔۔۔۔
لبابہ نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے تو خود بخود آنسوں باڑ توڑتے ہوئے گالوں کو بھگو گئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور لبابہ اللہ کے سامنے ہاتھ اٹھائے ہچکیوں سے مخاطب ہوئی
یا اللہ میں تیری رحمت سے ناامید نہیں ہوں ۔۔۔
میں تیری ناشکری بندیوں میں سے ہوں۔۔۔۔۔۔
مولا مجھے معاف فرما دے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یا اللہ میں مشکلوں سے گھبرا گئ ہوں مجھے صبر و تحمل عطا فرما۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اللہ جی آپ تو جانتے ہیں موت بے حد آسان ہے۔۔۔۔۔
موت سے پہلے،بہت پہلے کا ایک لمحہ، موت کی اذیتوں کو چھو جاتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اللہ جی اگر خبیب شاہ ہی میرے نصیب میں ہے تو اللہ جی اس کے دل میں میرے لیے محبت نہ سہی نفرت ہی مٹا دے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ورنہ ایسا نہ ہو ک میرے لیے اسے آگے چل کر معاف کرنے میں دل مردہ ہو جائے ۔۔۔۔۔۔
''بے شک تو دلوں کے حال جانتا ہے''
وہ جائے نماز سے اٹھی اور دل میں سکون محسوس کرکے نیچے آئی اور کام میں لگ گئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قریبا 3 گھنٹے میں سارے کام سے فارغ ہوئی تو بھوک کا شدت سے احساس ہوا۔۔۔۔۔
وہ وہاں سے کیچن میں آئی اور اپنے لیے ناشتہ بنانے لگی۔۔۔۔۔۔
انڈا اور پراٹھا بنا کر ٹیبل پر رکھا اور چائے نکال کر ٹیبل تک آئی اور کھانے لگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پھر دس منٹ تک کھایا اور رات کے کھانے کا انتظام کیا۔۔
بریانی کا سا بنایا اور قیمہ مٹر بنانے کے لیے مٹر ڈھونڈنے لگی۔۔۔۔۔۔۔
تقریباً 6 بجے فارغ ہوئ اور برتن دھونے کے بعد لاؤنچ میں صوفے پر آ کر لیٹ گئی۔۔۔۔
لیٹے لیٹے معلوم ہی نہیں ہوا کہ کب آنکھ لگ گئی۔۔۔۔۔۔
شاہ 7 بجے گھر آیا اور اسے سوتے دیکھ کیچن میں گیا اور پانی کا گلاس اس پر انڈیل دیا
لبا جو سوئی تھی ایک دم ہڑبڑا کر اٹھی۔۔۔۔۔۔
کککیا ہوا۔۔۔۔۔۔۔    
تمہاری ہمت کیسے ہوئی میرے اجازت کے بغیر یہاں سونے کی ہاں۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ اس کا منہ دبوچے اس پر گرفت مضبوط کیا غصے سے دھاڑا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ شاید صبح والی بات کا غصہ اتار رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔
دفع ہو جاؤ اور میرے لیے کھانا لے کر آو
وہ روتے ہوئے کیچن میں بھاگی اور شاہ کے لیے کھانا گرم کرنے لگی 
قریبا 10 منٹ تک وہ کھانا ٹیبل پر لگا کر اس کا ویٹ کرنے لگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خبیب شاہ نیچے آیا اور کھانے کے لیے بیٹھ گیا۔۔۔۔۔۔
ابھی پہلا ہی نوالہ لیا کہ شاہ نے جان بوجھ کر پلیٹ نیچے گرائی اور زور سے تھپڑ رسید کیا۔۔۔۔۔۔۔
کیا تھا یہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اٹھاؤ نیچے سے او
سے اور پلیٹ میں ڈالو لبابہ نے جلدی سے کھانا پلیٹ میں ڈالا اور چپ چاپ کھڑی ہو گئی۔۔۔۔۔۔
بیٹھو نیچے لبابہ جلدی سے نیچے بیٹھی معا یہ نہ ہو کی ایک اور تھپڑ ماردے
اب شاہ کرسی پر ٹانگ پر ٹانگ پر ٹانگ جمائے بیٹھا تھا اس کا ایک پاؤں زمین پر اور دوسرا لبابہ کے چہرے کے بلکل قریب تھا۔۔۔۔۔۔۔۔
اور حکم دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کھاؤ اسے 
پر مجھے بھوک نہیں ہے لبابہ منمنائی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا کہا ۔۔۔۔۔۔۔شاہ نے دبے دبے لہجے میں کہا۔۔۔۔
کککککچھ نہی۔۔۔۔۔۔۔۔ لبابہ نے بامشکل آنسوں کا گولا کلے میں اٹکاتے ہوئے جواب دیا۔
تو کھاؤ میرا منہ کیا دیکھ رہی ہو ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لبابہ بمشکل اپنے آنسوں کو کنٹرول کرتے ہوئے کھانے لگی جبکہ آنسو باڑ توڑ کر باہر نکلنے کو بیتاب تھے
لبابہ نے جلدی سے کھایا اور اٹھنے کے لیے کھڑی ہوئی وہ جلد ازجلد وہاں سے غائب ہونا چاہتی تھی۔۔۔۔۔
توہین کے احساس سے اس کا چہرا لال ہو رہا تھا اور شاہ اس کے چہرے کے بدلتے ہوئے رنگ دیکھ رہا تھا
میں نے کہا کہ یہاں سے جاؤ چپل اتارو میری ۔۔۔۔۔۔
اس کی اس بات پر لبابہ نے جھکا ہوا سر جھٹکے سے اٹھایا کہ کوئی اتنا سنگدل کیسے ہو سکتا ہے۔۔۔۔۔
لبابہ نے حکم کی تکمیل کی اور چپل اتارنے لگی 
ہمممممممممم تمہاری اوقات اس چپل جتنی بھی نہیں ہے لبابہ عادل میری بیوی بننے کی تو دور کی بات۔۔۔۔۔۔
اور لبابہ پانی بھری آنکھ سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے ہوئے صرف اتنا ہی بولی
خبیب شاہ میرا طرف اتنا بڑا نہیں کہ آگے چل کر معاف کر سکوں اور رہی بات اوقات کی تو یاد رکھنا
میرا رب مجھے وہ بھی دے گا جس کی میری اوقات نہیں اور وہ وہاں سے۔ نکالتی ہوئی چلی گئی اور خبیب شاہ ابھی بھی اس کے لفظوں میں اٹکا ہوا تھا۔۔۔۔۔
دیکھتے ہیں قسمت کونسا موڑ لاتی ہے 
"اور بے شک اللہ بیسٹ پلینر ہے"

   1
0 Comments